بدھ 19 نومبر 2025 - 19:16
تاریخِ نسواں | اسلام: فضیلت کا معیار جنس نہیں، تقویٰ ہے

حوزہ/ اسلام میں مرد و عورت کی برتری کا واحد معیار تقویٰ اور اخلاقی فضائل ہیں۔ ہر انسان کے عمل کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ قرآن نے عورتوں سے بے اعتنائی کی سخت مذمت کی ہے اور انسانوں کی برابری پر زور دیا ہے۔ عربِ جاہلیت بیٹی کی پیدائش کو ننگ سمجھتے اور انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے، مگر اسلام نے عورت کی عزت، کرامت اور اس کے حقوق کو مکمل تحفظ دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | مرحوم علامہ طباطبائیؒ، صاحبِ تفسیرِ المیزان، نے سورۃ بقرہ کی آیات 228 تا 242 کی تفسیر میں "اسلام اور دیگر مذاہب و اقوام کی نظر میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام" پر گفتگو کی ہے۔ اس سلسلے کا دسواں حصہ پیش خدمت ہے:

اسلام میں برتری کا معیار: صرف تقویٰ اور پرہیزگاری
چونکہ ان آیات کے مطابق مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے اچھے یا برے اعمال کا حساب صرف اسی کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے، اور فضیلت کا کوئی معیار نہیں سوائے تقویٰ کے، اور جب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تقویٰ کا ایک اہم مرحلہ اخلاقِ فاضلہ ہیں "جیسے ایمان کے مختلف درجے، نفع بخش عمل، مضبوط عقل، اچھی عادتیں، صبر، حلم اور بردباری" تو نتیجہ یہ نکلتا ہے:

اگر کوئی عورت ایمان کے بلند درجے پر فائز ہو، یا علم و حکمت میں اعلی مقام رکھتی ہو، یا اس کی عقل مضبوط اور متوازن ہو، یا اخلاقی فضائل میں آگے ہو—تو ایسی عورت، اسلام کی نظر میں، اس مرد سے کہیں زیادہ باعزت اور بلند مرتبہ ہے جو اس جیسا نہیں۔

اسلام میں عزت و کرامت کسی کا ذاتی حق نہیں، نہ مرد ہونے میں فضیلت ہے نہ عورت ہونے میں؛ اصل فضیلت صرف تقویٰ اور نیکی میں ہے۔

اسی بات کو قرآن مزید واضح طور پر یوں بیان کرتا ہے:

«مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیَاةً طَیِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ».

"جو بھی مرد یا عورت نیک عمل کرے، اور وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور اس کے بہترین اعمال کے مطابق اجر دیں گے۔"

اسی طرح ایک اور آیت کہتی ہے:

«مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزَیٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُونَ فِیهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ».

"جس نے برائی کی، اسے اسی کے برابر بدلہ ملے گا؛ اور جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور مؤمن ہو، وہ جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں بے حساب رزق پائیں گے۔"

اور ایک اور آیت میں ہے: «وَمَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُونَ نَقِیرًا».

"جو مرد یا عورت ایمان کے ساتھ نیک کام کرے، وہ جنت میں داخل ہوں گے، اور اُن پر رائی کے دانے جتنی بھی کمی نہیں کی جائے گی۔"

عربِ جاہلیت کی عورت دشمنی کی قرآنی مذمت

ان آیات کے علاوہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر عرب جاہلیت کے عورت سے بے اعتنائی اور نفرت کے رویے کو سختی سے رد کیا گیا ہے، مثلاً:

«وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَیٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ کَظِیمٌ؛ یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَیُمْسِکُهُ عَلَیٰ هُونٍ أَمْ یَدُسُّهُ فِی التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ».

"جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی، تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا اور وہ غم و غصّے سے بھر جاتا۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اس بُری خبر کے باعث کس طرح اُن کا سامنا کرے۔ سوچتا کہ اس بچی کو ذلت کے ساتھ رکھے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو! کیسا برا فیصلہ تھا جو وہ کرتے تھے!"

عرب، بیٹی کی پیدائش کو باعثِ شرم سمجھتے تھے، کیونکہ وہ خیال کرتے کہ لڑکی جب بڑی ہوگی تو نوجوانوں کے طعنوں اور فریب کا نشانہ بنے گی، اور یہ ننگ باپ اور خاندان کے نام لگے گا۔ یہی سوچ ان کو بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے جیسے ظالمانہ جرم تک لے گئی۔

قرآن نے اسے یوں مذمت کی: «وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ؛ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ». "اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: وہ کس گناہ میں قتل کی گئی؟"

اسلام کے بعد بھی یہ سوچ مکمل ختم نہ ہوئی۔ نسل در نسل کچھ غلط تصورات مسلمانوں میں باقی رہے۔ ثبوت یہ ہے کہ:

اگر مرد اور عورت زنا کریں تو بدنامی ہمیشہ عورت کے سر ڈال دی جاتی ہے، چاہے وہ توبہ بھی کر لے، جبکہ مرد اکثر بدنام نہیں سمجھا جاتا "چاہے توبہ نہ بھی کرے" حالانکہ اسلام دونوں کو یکساں مجرم سمجھتا ہے، دونوں پر سزا یکساں ہے، اور دونوں ہی گناہگار ٹھہرتے ہیں۔

(ماخذ: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، ص ۴۰۹)

(جاری ہے…)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha